ڈاکٹر طارق رستم
تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
قبال بانو کا گایا ہوا یہ گیت اہل ِدل کے تخیلات میں حسن و عشق کے چونچلوں کی جیتی جاگتی تصویریں بناتا چلا جاتا ہے ۔ آج عرصے کے بعد اقبال بانو کی مدھر آوازسماعت سے ٹکرائی تو نا صرف ماضی کے کئی دریچے وَا ہوئے‘ بلکہ گیت کے بول زندگی کا ایک نیا فلسفہ بھی سمجھا گئے ۔
گوری تھم تھم کے چلے تو پائل کی چھم چھم میں گیتوں کا رچائو اورنغمگی ‘ اس کا ٹھہر ٹھہر کے چلنا سر تال کا استعارہ! یہی گوری اگر سرپٹ بھاگنے لگے تو پائل کی چھم چھم سراسر شور ‘ پراگندگی اور ایک بے سری راگنی ۔ ہماری زندگی بھی اس گوری کی مانند ہی ہے ‘جس کی پائل کے گیت ‘اسی صورت میں سریلے ہو سکتے ہیں‘ جب وہ تھم تھم اور سہج سہج کے چلے ۔
جدید طرزمعیشت اور معاشرت نے زندگی کی گوری کو اس قدر سرپٹ بھگایاہے کہ اس کی پائل کے سُرتال بکھر کر رہ گئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ انسان اپنی رفتار سے زندگی گزارنے کا عادی تھا۔ اس کا شیڈول اس کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے عین مطابق تھا۔ بالفاظ دیگر جس قدر اس کی ہمت اور قدرت اجازت دیتی تھی‘ وہ اسی قدر کام کرتا تھا۔ زندگی ایک ترنم سے چل رہی تھی‘ پھر صنعتی انقلاب آیا اور مشینیں اس کی مدد کو پہنچ گئیں۔ پہلے پہل اس بات کا فیصلہ انسان کرتا تھا کہ مشینوں کو کتنا چلانا ہے اور ان سے کتنا کام لینا ہے ؟لیکن جوں جوں دنیا بھر میں ماس پروڈکشن فروغ پذیر ہوئی اور لوگوں میں زیادہ سے زیادہ اشیاء خریدنے کا جنون بڑھا تو شیڈول بنانے کا اختیار انسانوں کے ہاتھ سے نکل کر مشینوں کی طرف منتقل ہو گیا۔
انسان کتنا کام کریں گے ؟اس کا فیصلہ مشینیں کرنے لگیں اور زندگی مشین کی گراریوں میں پھنسا ہوا ایک پہیہ بن کر رہ گئی ۔ اب‘ وہ چاہے نہ چاہے‘ اسے گھومناہے ۔ صبح شام ‘ سردی گرمی‘ آندھی جھکڑ۔
کبھی غور کیا صبح اُٹھ کر سب سے پہلا کام ہم کیا کرتے ہیں ؟عبادت کرتے ہیں‘باغیچے میں کھلے پھول دیکھتے ہیں یا تازہ ہوا کے جھونکے سے لطف اندوز ہوتے ہیں؟ نہیں ! سب سے پہلے ہمارے نظریں گھڑی کے طرف اُٹھتی ہیں‘ گویا ہم وقت کے غلام ہوں۔ ایک جاپانی کہاوت ہے کہ انسان وقت کو تقسیم کرتا ہے اور وقت انسان کو۔ قدیم زمانے سے انسان وقت کو ماپتا او ر برسوں‘ مہینوں‘ دنوں اور پھر گھنٹوں‘ منٹوں اور سیکنڈوں میں تقسیم کرتا آیا ہے‘ لیکن اب‘ پلٹ کر یہی کام وقت انسان کے ساتھ کر رہا ہے ۔ آج ہماری زندگیاں گھنٹوں‘ منٹوں اور سیکنڈوں میں تقسیم ہو چکی ہیں ۔ اتنے بجے سے اتنے بجے تک یہ کام‘ اگلے تین گھنٹے وہ کام ‘ پندرہ منٹ میں وہاں پہنچواور پانچ منٹ میں کام ختم کر کے رپورٹ دو۔ صبح آنکھ کھلنے سے لے کر رات آنکھ بند ہونے تک ایک دوڑ ہے ؛نان سٹاپ ‘ بلا تعطل ‘ بنا فراغت و آرام‘ اور بنا سوچ و بچار۔ احمقانہ دوڑ۔ اس بنا سوچ و سمجھ کی دوڑ کا مقصد کیا ہے ؟ خوشی ؟ جسے ہم نے روپوں ‘پیسوں اور بڑے بڑے عہدوں سے جوڑ رکھا ہے ۔
بقا کی جنگ لڑنے والوں کی مصروفیت تو سمجھ آتی ہے‘ لیکن اصل تشویش کی بات یہ ہے کہ بینک اکائو نٹ روپوں سے بھرنے اور گھر کو جدید ترین برقی آلات کاشوروم بنانے جیسی لاحاصل خواہشات نے زندگی کی گاڑی کو ہائی گیئرلگا رکھا ہے ۔ سب کچھ پا لینے کی جستجو میں نہ ہاتھ باگ پر رہے ہیں‘ نہ پائوں رکاب میں ‘ یہاں تک کہ غوروفکر اور سوچ و بچار جیسے نفیس اور ارفع کام تو دُور کی بات ہمارے پاس کھانا کھانے اوراپنی صحت تک کا خیال رکھنے کا وقت نہیں ہے ۔ ہماراکھانافاسٹ فوڈ ہوگیا ‘جو ڈرائیو تھرو سے سیدھا ہمارے پیٹ میں منتقل ہو جاتا ہے اور انواع و اقسام کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے ۔
ہمارے معالج ہم سے بھی مصروف ہیں ۔ ان کے پاس ہماری بات سننے کا وقت نہیں ۔ ایک ریسرچ کے مطابق ایک ڈاکٹر ایک مریض کو اوسطاً چھ منٹ دیتا ہے اور بیماری کی مکمل چھان بین کی بجائے علامات کی دوا دے کر جان چھڑا لیتا ہے ۔ جب خود ہمیں اپنی صحت کا خیال نہیں توڈاکٹر سے گلہ کیسا؟
مصروفیت کی ٹاپ گیئر فراری پر سوار ہماری حالت اندر بیٹھے ہوئے ڈرائیورجیسی ہے‘ جو اپنی سبک رفتاری کے باعث اپنے ماحول سے لاتعلق ہو جاتا ہے او ر اس کیلئے آس پاس کے تمام مناظردھندلا جاتے ہیں۔بیتابی اور شتابی کے اس کلچر نے ہمیں اپنے اردگرد بسنے والوں سے بھی بے خبر کر دیا ہے۔ رشتہ داروں اور ہمسایوں سے اب ہم دکھ درد نہیں بانٹتے ‘بلکہ موازنہ اور مقابلہ کرتے ہیں۔اور یہ سب کچھ کر کے ہم نے حاصل کیا کیا ہے ؟ بے سکونی‘ تھکاوٹ‘ ہائی بلڈپریشر‘ شوگر‘ نفسیاتی مسائل ‘ سٹریس اور ڈیپریشن وہ ثمرات ہیں ‘جو سبک رفتاری کے اس کلچر نے ہمیں عطا کیے ہیں۔
خوشی اور کامیابی کے حصول کیلئے نکلے تھے ‘ فرسٹریشن اور ڈیپریشن لے کر لوٹے۔ نمازیں بخشوانے گئے تھے‘ روزے گلے پڑ گئے ۔ منزل اور بھی دُور ۔ منیرؔ نیازی صاحب نے شاید اسی بات سے گبھرا کر پکار اٹھتے ہیں۔؎
منیرؔ اس شہر پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
تیزی کا یہ کھیل اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ ہمارے بچے بھی اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں۔گریڈز اور مارکس کی دوڑ میں دھکیل کر ہم نے اپنے بچوں کا بچپن تک چھین لیا ہے ۔ بہت سے بچے اس غیر ضروری دبائو کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں ‘ اسی بات کا احساس کرتے ہوئے بہت سے ممالک نے ” Slow Schooling‘‘ جیسے تصورات کی طرف رجوع کرنا شروع کر دیا ہے‘ تاکہ بچوں کوذہنی طور پر ایک آرام دہ ماحول فراہم کر کے آزادانہ طور پر سیکھنے کا موقعہ دیا جائے ۔ اس حوالے سے فن لینڈ کا ماڈل بہترین اور قابلِ تقلید ہے ۔
اس طویل وضاحت کا مقصد قاری کو پریشان کرنا یا ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے اس کی جائز جدوجہد کی مخالفت یا حوصلہ شکنی ہرگز نہیں ‘ صرف اس کوسوچنے کی دعوت دینا ہے کہ جس قدر ہم اپنے آپ کو ہلکان کر رہے ہیں‘ اس کی ضرورت بھی ہے کہ نہیں یا ہے تو کس قدر ہے ؟ خوشی اور کامیابی کے جو معیار ہم اپنے ذہنوں میں سیٹ کر لیے ہیں‘ وہ محض تخیلاتی تو نہیں ۔ یہ کہنا ہرگز مقصود نہیں کہ سب لوگ درویشی جبہّ پہن کر جنگلوں کی طرف نکل جائیں ‘لیکن کم از کم اپنی ضروریات اور خواہشات کو Rationalizeتو کر ہی سکتے ہیں‘جو ہمیں اس ذہنی وجسمانی کرب سے بچا سکتی ہے‘ جو فضول اور فالتو بھاگم بھاگ کی پیداوار ہے ۔ اس طرح حاصل ہونے والی فرصت اور فراغت کو ہم اپنی پسندیدہ مشاغل میں صرف کر سکتے ہیں‘بلکہ صَرف بھی کیا کرنا ‘فرصت کا ہونا اور اس میں خالی الذہن رہنا بذاتِ خود ایک تخلیقی اور روح پرور کام ہے ۔
ہم تیزیوں کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ بہتوں کے لیے تو خالی الذہن رہنے کا تصور ہی حیران کن ہوگا‘مگریقین کریں یہ کوئی ذہنی عیاشی نہیں ہمارے جسم کی بنیادی ضرورت ہے ۔ ہاں‘ اگر خالی وقت کہ بھرنالازم ہے تو ٹی وی یا فیس بْک تو ہرگز نہیں؛ البتہ صحبت ِیاراں ‘ کوئی غزل یا ٹھمری یا کوئی اچھی سی کتاب میسرہو توبہت عمدہ اور اگرکوئی تخلیقی کام ہو جائے توکیاہی بات ہے !
مغرب میں تو اس حوالے سے آگاہی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس نے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی ہے‘ جس کو Slow Movement کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے ۔ Slow theme Resturants‘ پارک اور Slow سکول بنائے جا رہے ۔ ابھی حال ہی میں اٹلی کے شہر ”برا‘‘ میں پچاس صفحوں پر مشتمل ” Citta Slow‘‘یعنی ”شہرِسست ‘‘کا منشور لکھا گیا ہے‘ جس میں وہ اصول وضع کر دیے گئے ہیں‘ جن پر عمل پیرا ہو کر شہروں میں زندگی کی رفتار کو آہستہ کیا جا سکتا ہے ۔
ہمیں بھی اگر اپنی زندگیوں کو زیادہ پرسکون ‘ پرلطف اور تخلیقی بنانا ہے تو زندگی کی گوری کو تھم تھم کے ‘ سہج سہج کے قدم رکھنا ہوں گے‘ تاکہ اس کی پائل کی چھم چھم کا سر تال قائم رہے اور اس میں سے جسمانی و روحانی تولیدگی و بالیدگی کے مدھ بھرے گیت نکلیں ‘ناکہ سٹریس کا شو ر شرابہ اورڈیپریشن کی بے ُسری تانیں!